خودشناسی کیا ہوتی ہے
ایک بہت مشہور قول ہے کہ جس نے خود کو پہچان لیا (خودشناسی) گویا اس انسان نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا۔ خود کو پہچانے کا مطلب ہے کہ جو کوئی کام میں کر رہا ہوں تو سوچو کہ اس کام کو انجام دینے والی کونسی ذات ہے۔ میں ایک ہی ٹائم میں دماغ، روح، دل اور جسم ہوں۔ ایک ہی ٹائم میں نفس مطمئنہ، نفس علامہ اور امارہ ہوں۔ میں یہ سوچو گا کہ میرے کام انجام دینے کے پیچھے میرا کیا کردار ہے۔
جو کام کو انجام دینے والا ہے ، میں اس کو تلاش کرو گا جو مجھے پر کھل جائے گی۔ یہ اک سوال ہے جس کے جواب کی ہر کسی کو ضرورت ہے۔ جب اس سوال کا جواب حضرت بابا بلھے شاہ کو مل گیا تو انہوں نے کہا کہ نہ میں موسٰی نہ میں فرعون۔ اس کا مطلب ہے کہ حضرت بابا بلھے شاہ کو پتہ چل گیا کہ میرے مسائل باہر کے نہیں ہے بلکہ میرے اپنے اندر کے ہے,اس کو خودشناسی کہتے ہیں.
گوتھم بدھ کی ایک بات بہت مشہور ہے کہ وہ اک دراخت کے نیچھے آلتی پالتی ہوں کر گیان میں بیٹھا ہوتا تھا۔ ایک دن گوتم بدھ کی آلتی پالتی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی آنکھ کھل گئی تو اس نے سامنے ایک بہت خوبصورت لڑکی آتی ہوئی دیکھی ۔ اس نے جب اس لڑکی کو دیکھا تو اسی لمحے اس کے اندر کا شر جاگ کیا گیا۔ اس کا خیال بڑا گندہ ہو گیا تھا۔ اس وقت اس کو خیال آیا کہ یہ تو مخلوق خیال کو گندہ کر دیتی ہے۔ پھر اس کو سوچ آئی کہ اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے یہ تو میرا اپنا قصور ہے کہ میرے اندر ہی ایسا کچھ گند تھا جو جاگ رہا ہے ۔
جب بھی آپ اپنے اندر کا حال جانتے ہیں تو آپ کو اس کی پہچان(خودشناسی) ہوتی ہے کہ میرے اپنے اندر ہی موسٰی اور فرعون ہے۔ اپنے اندر ہی آپ حیاتی اور چودہ طبق ہیں۔ آپ کے اپنے اندر ہی خدا ہے، اندر ہی شیطان چھپ کر بیٹھا ہے۔ آپ کے اندر ہی وہ ہر شے ہے جو آپ سے ہر فیصلہ کرواتی ہے۔
تقدیر میں فیصلہ کرنے والا آپ کی تقریر پر اثرات ڈال رہا ہوتا ہے۔ اگر فیصلہ آپ کا اپنا ہے تو تلاش کریں کہ وہ والا فیصلہ آپ کے اندر کون کر رہا ہے۔ اگر یہ فیصلہ نفس نے کیا ہے تو یہ ضلالت ہے اور یہ فیصلہ روح کا فیصلہ ہے تو سعادت ہے۔ اپنی زندگی میں یہ اک کام ضرور کریں۔ اپنی زندگی میں ہونے والے واقعات کو کو سوچھیں اور خیال کریں کہ دراصل میں کیا کر رہا ہوں، اس آپ کو اپنی ذات کے بارے میں سمجھ بوجھ اورخودشناسی آنا شروع ہو جائے گی